کیسے کیسے آلِ اَطہر پر ستم ڈھائے گئے
کیسے کیسے آلِ اَطہر پر ستم ڈھائے گئے
بے کفن لاشوں پہ بھی رہوار دوڑائے گئے
کوثر و تسنیم کے وارث کا پانی بند تھا
حیف ہے تشنہ لبوں پر تیر برسائے گئے
لوٹی لاشوں کی قبائیں اور دُر معصوم کے
چادریں چھینی گئیں خیمے جلوائے گئے
ہر گلی ہر موڑ جشنِ فتح تھا شام میں
مسجدوں میں جا بجا دربار سجوائے گئے
وہ جھلاتی دھوپ اور تپتی زمین کربلا
آسمانوں سے بھی جیسے شعلے برسائے گئے
حضرت جبرئیل جن کے در پہ نوکر تھے وہی
اھلیبیتِؑ مصطفیؑ بازار میں لائے گئے
How the family of PROPHET was persecuted
Horses were also run over the unshrouded corpses
The water on the heir of Kausar and Tasnim was closed
It is a pity that arrows were rained on thirsty lips
looted cloths of corpses and the earings of the innocent
Chadar were snatched off and tents were set up fire
Every street, every turn was a celebration of victory in the Syria
Courts were decorated in mosques
The scorching sun and the scorching earth of Karbala
Like flames rained down from the sky
Gabriel was the servant at there door of Prophet Muhamamd as
Ahl al-Bayt Mustafa was brought to the bazaar
अतहर के परिवार को कैसे सताया गया
रेहवार को भी ढकी लाशों के ऊपर से चलाया गया
कौसर और तसनीम के वारिस का पानी बंद हो गया
यह अफ़सोस की बात है कि प्यासे होठों पर तीर बरसाए गए
कबीले लूटी लाशों और मासूमों के दरवाजे
चादरें फाड़ दी गईं और टेंट लगा दिए गए
हर गली, हर मोड़ शाम की जीत का जश्न था
मस्जिदों में दरबार सजाए गए
चिलचिलाती धूप और कर्बला की तपती धरती
जैसे आसमान से आग की लपटें बरस रही हों
गेब्रियल दरवाजे पर नौकर था
अहल अल-बैत मुस्तफ़ा को बाज़ार में लाया गया
Karbala is a clear and enlightening example for the blind who never understand Wilayah Ali.
If the Prophets have no heirs, then why was Imam Hussain (as) buried with his entire family and companions in Karbala, hungry and thirsty?
Christians, who were brutally murdered 2500 years ago, are still protesting with the sign of the cross, but as soon as the martyrdom of Imam Hussein (as) is mentioned, Muslims get angry. Those who, centuries ago, came out of the state of faith in order to make the Companions superior to the Ahl al-Bayt and to be hostile to the Shiites, how do they call themselves Muslims today?
کربلا واضح اور روشن مثال ہے ان اندھوں کے کیلئے جنہیں ولایت علی کبھی سمجھ نہیں آتی۔
اگر انبیاء کوئی وارث نہیں تو امام حسین علیہ السّلام کو پورے خاندان اور ساتھیوں کے ساتھ کربلا میں بھوکا پیاسا کیوں دفن کیا گیا؟
دھتکارے ہوئے، بنی امیہ و مروان اور دشمنان اھلیبیت علیہ السّلام جنہوں بنت رسول کو پر درواز گرایا، ان کا بچہ شہید کیا، مولا علی ابن ابی طالب کو قتل کیا، امام حسن کو ذحر دے کر مارڈالا امام حسین کو ذبح کیا ، امام زین العابدین کا وقار مجروح کرنے کی کوشش کی، گیارہ امام و اھلیبیت علیہ السّلام جن بچے اور بچیاں بھی بے دردی سے شہید کئے گئے ان پر ظلم وستم کرنے والوں کو غیر مسلم ، مسیحی، یہودی، ہندو، کافر و دہریا تک ظالم کہتا ہے، بس نہیں کہتا تو مسلمان نہیں کہتا۔
٢٥٠٠ سال پہلے حضرت عیسی علیہ السّلام کو بے دردی سے قتل کیا گیا عیسائی آج تک سلیب کا نشان جگہ جگہ لگا کر احتجاج کررہے ہیں لیکن جوں ہی امام حسین علیہ السّلام کی شہادت کا ذکر آئے تو مسلمانوں کو غصّہ آجاتا ہے۔ جو صحابہ کو اھلیبیت سے افضل بنانے کیلئے اور شیعوں سے دشمنی ایمان کی حالت سے صدیوں پہلے باہر ہوئے وہ آج خود کو کس منہ سے مسلمان کہتے ہيں۔
سندھ کے سدا بہار سنگیت کار سینگار علی سلیم 1940 میں راجستھان کے ایک گاؤں الور میں پیدا ہوئے۔ آٹھ سال کی عمر میں ، وہ اپنے بزرگوں کے ساتھ پہلے بہاولپور اور پھر سکھر گئے، اور وہاں کچھ سال آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اور نوجوانی میں سر سنگیت سے ناتا جوڑ لیا ۔ 1975 میں ، سید لال حسین شاہ 'سوز' کی غزلیں "بہار جاویداں خاموش ، گانے سے موسیقی کا باقائدہ سفر شروع کیا۔ انہوں نے راگ کی ابتدائی تعلیم استاد امانت علی خان سے حاصل کی اور ریاضت اور محنت سے موسیقی کی دنیا میں بے مثال مقام حاصل کیا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے 50 سال عقیدت اور انتھک محنت کے ساتھ سندھی موسیقی کے لیے وقف کیے۔ وہ اصل میں سندھ میں پیدا نہیں ہوا تھا ، پھر بھی اس نے سندھ کو اپنی ماں کہا اور خود کو سندھ کا قابل ِفخر فرزند ثابت کیا۔ میواتی خاندان کا فرد ہونے کے باوجود جسے کلاسیکل موسیقی اور سر سنگیت میں مہارت بھی حاصل تھی اس سندھی زبان کافی ، لوک سنگیت اور سندھی گلوکاری جو حسن بخشا اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ سر لگانا اور اس کا تاثر قائم رکھنے کے ساتھ کے ان کی آواز میں جو ٹھہراؤ تھا اسکی مثال وہ آپ ہی تھے۔ جس نے خوبصورتی دی ہے۔یہ بھی اعزاز ہے کہ استاد بڑے غلام علی خان کے بھائی استاد امانت علی خان کا دھاگہ بندھے بہترین شاگرد تھے۔ پر کافی ، کلام اور لوک سنگیت میں استاد اللہ ڈنو نوناری کا اثر ان کی گائیکی میں جھلکتا ہے۔لیکن ان کا منفرد انداز انھیں سندھ کے تمام فنکاروں سے منفرد و یگانا دکھاتا ہے اور ان کی دل لبھانے والی آواز بھی آج بھی سحر انگیز جادو کی طرح اثر کرتی ہے۔استاد سینگار علی سلیم نے اپنی زندگی کے آخری 10 سال سیر و سفر اور نیم دیوانگی کی کیفیت میں گزارے۔ اس دوران وہ تقریبا 4 سے 5 برس تک ھالا شہر میں بھی مقیم رہے۔رانی فقیر سودڑی کا مکان ان اپنا گھر تھا ، پر ہالا کے ڈاکٹر اللہ بچائی میمن سے ان کی دلی دوستی تھی۔ اور ان کی دوستی کا یہ عالم تھا کہ سینگار علی سلیم نے اپنی زندگی کے آخری ایّام انکے ہسپتال میں بھی گزارے ۔ اور سنیگار علی سلیم کے دار فانی سے کوچ کرنے بعد ہالا کے بہت سے لوگوں نے ڈاکٹر اللہ بچائی سے ان کا افسوس بھی کیا ۔ مشہور شاعر سوزھالائی کے ساتھ بھی ان کی دوستی اور تعلقات تھے۔ گلوکار سینگار علی سلیم سندھ کا نہایت سریلا اور سجیلا گلوکار تھا۔ وہ سندھ کا ایک خوبصورت موسیقار بھی تھے، جس نے اپنے منفردانداز و تحیّل کو اپنے گانوں، سنگیت اور نوحہ خوانی میں پیش کیا۔ وہ ایک شریف النفس انسان خوشخط شاعر ، مصور اور نوحہ نگار بھی تھے۔ انہوں نے سندھی لوک سنگیت فنکار کے علاوہ سرائیکی ، اردو ، پنجابی اور فارسی سمیت متعدد زبانوں میں بھی شاعری کی۔ ایک عظیم موسیقار کی حیثیت سےانھوں نے انتہائی دلفریب آواز ، ریڈیو ، ٹی وی اور کیسٹ ذریعے سندھ کے لوگوں میں بہت مقبول ہوئي ۔
آج بھی بہترین صوفی شعرا کی بہترین کافیاں و غزلیں سینگار علی سلیم کی فصیح آواز فزا گونج رہی ہے ، ہر سمت میں گھوم رہی ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو سندھ کے معروف گلوکار کے طور پر ممتاز کیا۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد پر میوزیکل کنونشن پروگرام کے پروڈیوسر غلام حسین شیخ نے سب سے پہلے 'کافی کی شاعری' کے لیے ریکارڈ کیا گیا۔ سنیگار علی سلیم کے لکھے اور پڑھے نوحے بھی آج تک عزا خانوں اور ماتمی جلوسوں میں قیامت بپا کرتے ہیں جن میں چند ایک مشہور نوحے یہ ہیں:۔
یہ حسینی قافلہ تاحشر رہے گا یاد ہمیں رب جانے وچ بازارا ں کیوں زینب پردہ دار آئی ویکھ کے زینب دکھی نوں ویر روندا رہ گیا عباس سا دنیا میں کوئی شیر نہیں ہے سجدے وچ ہائے شہید ہویا اج کل پیراں دا پیر حسین |
کرب و بلا جے کیس تے کائنات پئ روئے قادر کربلا میں ایھےجفا تھیندے ڈٹھی ہائے باج بھراواں کیویں شام نوں جاواں اسلام کا وقار بڑھایا حسین نے کیا جرم پیمبر کے نواسے نے کیا ہے امت نے ستایا ہے لولاک دے پیراں نوں |
سینگار علی سلیم نے اپنی آواز میں سب سے پہلے بازارِ شام کی تاریخ آيا اڱڻ عجيب نصيب ڀلا (لال حسين شاهه ’سوز‘)سندھی سوز و سر سنگیت کے ساتھ پاکستان ریڈیو اسٹیشن حیدرآباد ریکارڈ و و نشر ہوئی : اور اس کے علاوہ نشر ہونے والے کلام یہ ہیں
· مئه مينا جي درڪار نه آ: لال حسين شاهه ’سوز
· آيا ڪين مارو وساريئون وطن کي: ريجهل شاهه،
· ڪيها يار پريم لڳايا اي: بيدل فقير،
· جاڳو جاڳو ڙي جيڏيون: لال حسين شاهه ’سوز‘،
· برسي بوند بهار: غلام شاهه،
· تو بن رين وهاڻي: مصري شاهه،
· آءٌ وريو نه ٿي وران: مصري شاهه،
· تنهنجي رمز سهڻا مان ڇا سمجهان: مير علي نواز ’ناز
· ڪڏهن تنهنجي وارن سندي رات ٿيندي: وفا پلي
· ڪيا سنگ سانوڻ وري: عبدالڪريم پلي
· وڌي ويون دل جون پريشانيون: لال حسين شاهه ’سوز
· ‘ڪيڏو به کڻي مان دُور وڃان: امداد حسيني
· شهر جانان مان ٿيو گذر آهي: سوز هالائي
سندھ کے اس سدا زندہ رہنے والی آواز نے KTN TV کے مشہور ڈرامہ "بالی" کیلئے بھی میوزک کمپوز کیا۔ مخصوص درویشی لباس میں کئی سر سنگیت کی محفلوں میں سچل سرمست اور سلطان باھو اعزاز بھی اپنے نام کئے اور طلائی تمغے بھی جیتے۔ صوفی شعراء کی دلی تمنّا ہوتی تھی کہ سینگار علی سلیم ان کا کلام کمپوز کریں اور گائیں تاکہ ان کی شاعری مشہور و مقبول ہوجائے ۔ سینگار علی سلیم نے جب بھی کوئی صوفی کلام یا کافی کوگایا دل سے گایا اور اور صوفیانا راگ نصف صدی تک جوش و جذبے سے گاتے رہے۔ 14 اگست 2004 جب لوگ جشن آزادی منارہے تھے اور جب شب اختتام پر تھی کہ سنگیت کی دنیا کے اس امر راگی نے آخری سانسیں لیں اور سندھی ، اردو، پنچابی، سرائیکی و فارسی زبان کا نایا ب شاعر ، نوحہ خواں و نوحہ نگار، اور بہترین فنکار ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا۔
Seengar Ali #Saleem, the evergreen king of Sindh, was born
in 1940 in Alwar, a village in Rajasthan. At the age of eight, he moved with
his elders to Bahawalpur and then to Sukkur, where he studied for a few years
up to the eighth grade, and in his youth became associated with music. In 1975,
Syed Lal Hussain Shah started his regular musical journey with the lyrics of
"Sooz" "Bihar Javedan Khamosh". He received his early
education in music from Ustad Amanat Ali Khan He dedicated 50 years of his life
to Sindhi music with devotion and hard work. He was not originally born in
Sindh, yet he called Sindh his mother and considered himself worthy of Sindh
and proved him as a patriot son. Despite being a member of the Mewati family,
he also mastered classical music and head music. The Sindhi language #Kafi,
folk music and Sindhi singing that gave him beauty is unparalleled in history.
He was the one who gave beauty. It is also an honor that Ustad Bade Ghulam Ali
Khan's brother Ustad Amanat Ali Khan was the best student. In Kalam and folk
music, the influence of #Ustad Allah Dino Nonari is reflected in his singing.
Shows the uniqueness of others and their captivating voice still works like a
magical magic today. Ustad Seengar Ali Saleem spent the last 10 years of his
life in a state of travel and semi-madness. During this time he also lived in
#Hala city for about 4 to 5 years. Rani Faqir Soodri's house was his own house,
but he had a close friendship with Dr. Allah Bachai Memon of Hala. And it was a
sign of their friendship that Singer Seengar Ali Saleem spent the last days of
his life in his hospital. And after the passing away of Seengar Ali Saleem,
many people of Halla also regretted Dr. Allah Bachai. He also had a friendship
and relationship with the famous poet Suzhalai. #Singer Seengar Ali Saleem was
a very sarcastic and stylish singer from Sindh. He was also a beautiful
musician from #Sindh, who presented his unique style in his songs, music and
lamentation. He was also a good-natured man, a happy poet, painter and
lamenter. Apart from being a Sindhi folk music artist, he also wrote poetry in
several languages including Seraiki, Urdu, Punjabi and Persian. As a great
musician, he became very popular among the people of Sindh through his
captivating voice, radio, TV and cassette.
Even today, the eloquent voice of Seengar Ali Saleem, the best Kafi and
#ghazals of the best Sufi poets, is resounding, moving in every direction. He
distinguished himself as one of the leading singers of #Sindh. Ghulam Hussain
Sheikh, the producer of the musical convention program on Radio Pakistan
Hyderabad, was the first to record for 'Kafi Poetry'. The lamentations written
and recited by Seengar Ali Saleem are still performed in mourning houses and
mourning processions.
Seengar Ali Saleem in his voice was the first to come to the history of the
Azadari with Musical Instruments.
This ever-living voice of Sindh also composed music for the popular #KTN TV
drama "Bali". #Sachal Sarmast and Sultan Bahoo also won awards and
gold medals at various music festivals in special Dervish attire. Sufi poets
longed for Seengar Ali Saleem to compose and sing his words so that his poetry
would become famous and popular. Whenever #Seengar Ali Saleem sang a Sufi kalam
or Kafi, he sang from the heart and sang Sufi melodies with enthusiasm for half
a century. August 14, 2004 when people were celebrating independence and when
the night was coming to an end, this musician of the world of music took his
last breath and became a rare poet, #lamenter and mourner of Sindhi, Urdu,
Punjabi, and #Saraiki and Persian languages. The best artist ever died